ur articles

Dear Visitors you can also publish your articles. Submit your articles @ (tamoortariq@live.com) (mtamoorrana@gmail.com)

جو اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں

جو اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں




 کون زرداری، کون نواز شریف، کون الطاف حسین، کون اسفند یار اور کون فضل الرحمٰن؟ ۔۔۔بساط تو کسی اور کے لیے بچھ رہی ہے ۔ ان کے لیے جو اپنے آپ سے اوپر اٹھیں گے۔ بڑے میاں کے ٹرنک میں غزوہ ہند پر لکھے 8000صفحات تھے اور انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں مرتب کروں لیکن وہ پھر چلے گئے۔
ایک اصول کتاب میں لکھا ہوتا ہے اور ایک وہ ،میدانِ جنگ میں بصیرت جسے تراشتی ہے۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے اور اس کے لشکروں کو کوئی نہیں جانتا۔جس مقدّس کتاب میں کوئی شک نہیں، وہ یہ کہتی ہے: آدمی کو اللہ نے اس کے ماتھے سے تھام رکھا ہے، فور برین۔ اس کرّہ خاک پہ، جہاں لگ بھگ بیس ہزار برس پہلے سیدنا آدم علیہ السّلام نے قدم رکھا تھا، وہ قادر مطلق اور حیّ قیوم خیال کے ذریعے حکومت کرتا ہے۔قرآن کہتا ہے : کتنے زمانے گزرے کہ انسان کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا۔شاید کروڑوں برس۔ کب وہ مسجودِ ملائک ہوا؟ جب 1300سی سی کی بجائے اسے 3500سی سی کا دماغ عطا ہوا۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ کاسہئ سر میں دماغ پھیلنے لگا۔۔۔خودبخود، مگر قرآن کریم مطلع کرتا ہے کہ بہشتِ بریں میں یہ آدم کے ظہور کا لمحہ تھا۔
ابلیس آدمی کو جانتا تھا اور لاکھوں برس سے جانتا تھا، فرشتے بھی جانتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے یہ کہا تھا کہ وہ خوں ریزی اور فساد کا مرتکب ہوگا۔ اس کی 22بنیادی جبلتوں کے تعامل کا فطری تقاضا یہی تھا۔ اسی لیے ابلیس نے برتری کا دعویٰ کیا اور جتلایا کہ وہ اسے گمراہ کرنے پہ قادر ہے۔ شیطان نے کہا کہ وہ آدم زاد کو اس کی خواہشات کے جنگل میں للچا اور بھٹکا کر مارڈالے گا۔ کہکشائیں اور آلوچے کے شگوفے کھلانے والے رب نے تردیدنہ کی اور یہ ارشاد کیا :مگر میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے۔ ابدلآباد تک کے لیے اس دن یہ قرار پا گیا کہ اپنی کرتوں اور کارناموں کے طفیل ہر شخص برباد ہو سکتا ہے مگر صاحب اخلاص نہیں۔ شجاعت اور ذہانت، علم اور ریاضت، حکمت اور قوّت، اللہ کی بارگاہ میں سارے سکّے جھوٹے ہیں۔۔۔ اخلاص کے بغیر۔ آسمانوں او رزمینوں،دلوں اور دماغوں ، ستاروں اور کوہساروں پر جس کی حکومت ہے وہ بے نیاز ہے مگر ان سے نہیں جو اپنی خامیوں اور خطائوں پر غور کرتے ہیں۔وہ ان سے بے نیاز نہیں، ادنیٰ ذاتی کامیابیوں کی بجائے، جو خدا اور اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایثار ان کی نشانی ہوتی ہے ۔ جبلّی تقاضوں کو شکست دے کر ظفر مندی کا علم لہرا دینے والی سخاوت۔ مخلص آدمی کی حکمت، محض حکمت نہیں بلکہ علم سے جلا پا کر فراست ہو جاتی ہے۔ فرمایا: مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔۔۔ وہ جو اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں، ان میں سے بعض کے قدموں میں بیٹھنے کا شرف اس خطاکار کو حاصل ہوا۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آتا، جب یقین مجروح ہو کہ 27رمضان المبارک کو تخلیق پانے والے پاکستان کا مستقبل محفوظ ہی نہیں بلکہ منور ہے ۔ ایک بش نے امریکہ کو برباد کیا اور ایک گورباچوف نے سویت یونین کو توڑ ڈالا۔ پاکستان نے کتنے بش اور گوربا چوف پالے اور اب بھی پال رہا ہے۔ 
محض حکمران نہیں، پورا حکمران طبقہ۔ ہر سال 3700 ارب روپے ٹیکس ہضم کرجانے والے زردار، ٹھگوں سے تین تین کروڑ روپے فیس وصول کرنے والے وکیل ۔ کاسہ لیس، جن میں سے بعض دانشور کہلاتے ہیں۔ جاگیردار جو جیتے جاگتے لہو پر جیتے ہیں ۔ انصاف کی کرسیوں پر بیٹھے جج جو کلرکوں سے کم تر تھے۔ نجات کے علم لہراتے رہنما، دراصل راہزن ۔ اپنی شمشیروں کی چمک سے میدانوں کو بھر دینے والے کتنے سپاہی شمشیر فروش تھے۔ پاکستان زخمی ہے مگر ان کے باوجود زندہ ہے۔ اس لیے کہ وہ رحمٰن کی تخلیق ہے ۔۔۔ ایک شیطان کی تخلیق بھی ہے،اسرائیل ! 
   فتنوں کا زمانہ شروع ہو چکا۔کتاب میں لکھا ہے کہ ایک تہائی دجّال سے جا ملیں گے۔ ایک تہائی ﴿فاسق مگر بظاہر مومن﴾ لڑیں گے اور برباد ہوں گے، پھر ایک تہائی اٹھیں گے اور غالب آئیں گے۔ملحدوں، مسخروں اور مولویوں سے خدا امّت محفوظ رکھے۔ میرے پاس کچھ مستند معلومات ہیں لیکن ابھی اظہار کا وقت نہیں آیا۔ اس خدا کی قسم ، جس کے قبضہئ قدرت میں انسانوں کی جان اور آبرو ہے، بھارت پاکستان کو شکست دینے کا خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔
بندوں کے اپنے منصوبے ہیں اور خدا کے اپنے ، الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر۔ کل شب پیپلز پارٹی کا لیڈر چلّایا ۔" خلقِ خدا کا فیصلہ خدا کا فیصلہ ہے"عرض کیا :خلقت کہاں، اب تو صرف خد اہے۔ مقدرات غالب آچکے۔ طنابیں ٹوٹ گئیں اور تاریخی قوتیں بے لگام ہوچکیں۔
   کون زرداری، کون نواز شریف، کون الطاف حسین، کون اسفند یار اور کون فضل الرحمٰن؟ ۔۔۔بساط تو کسی اور کے لیے بچھ رہی ہے ۔ ان کے لیے جو اپنے آپ سے اوپر اٹھیں گے۔ بڑے میاں کے ٹرنک میں غزوہ ہند پر لکھے 8000صفحات تھے اور انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں مرتب کروں لیکن وہ پھر چلے گئے۔

No comments:

Post a Comment