ur articles

Dear Visitors you can also publish your articles. Submit your articles @ (tamoortariq@live.com) (mtamoorrana@gmail.com)

نیٹو کی بمباری اور پاکستان کی خود مختاری

نیٹو کی بمباری اور پاکستان کی خود مختاری



فرنگی فوج پہلے حملے کی خوشی اور موج کی نشے میں سرمست ہی تھی کہ انہوں نے ہماری سرحد پہ ایک اور حملہ کر کے ہمیں کملہ ثابت کر دیا جہاں تک جانباز فوجیوں کا تعلق ہے تو وہ پہلے بھی اس وطن کی خاطر جان کی بازی لگاتے آئے ہیں اور آئندہ بھی وہ حب الوطنی کی یہی مثالیں پیش کرتے رہیں گے تمام قوم ان کے لئے دعا کرتی ہے اور ان کی قربانیوں کو سلام کرتی ہے جہاں تک بڑے فوجیوں کا تعلق ہے تو ان کی طرف سے بھی علامتی بیان آئے ہیں اور کچھ دن تلک آتے رہیں گے غالب گمان یہی ہے کہ سیاسی بھی بیان بازی میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لئے کوشاں رہیں گے اس کے بعد خاموشی اختیار کر لیں گے حسبِ سابق اور حسبِ قاعدہ باقاعدہ ایک دو کمیشن بھی بنیں گے اور تحقیق وغیرہ کا سلسلہ چلے گا کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد یکایک سب کچھ رک جائے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب ٹھیک ہو جائے گا کمیشن کا کام ابھی ادھورا ہی ہو گا کہ اسلام آباد میں واقع ڈپلومیٹک مشن کی طرف سے امداد کے نام پہ کچھ ڈالربمعہ بھاری سود ملک کی خوشحالی کے لئے دینے کا اعلان کیا جائے گااس کے ساتھ امن کی فاختہ لئے خاص لوگ خاص لوگوں کوخوش حالی اور خیر سگالی کا پیغام پہنچانے جوق در جوق اسلام آباد کے ہوائی اڈے پہنچنا شروع ہو جائیں گے سیاست چمکانے کے ایسے نادر اور نایاب موقعوں پہ سیاسی عیاری سے کام لیتے ہوئے بنا کوئی سوال کئے اور جواب سنے گلاب کے پھول اٹھائے بین الاقوامی ہوائے اڈے پہ انہی لوگوں کے استقبال کے لئے پہنچ جائیں گے جنھوں نے ہماری قبروں کے کھڈے کھودیں ہیں

آزاد اور خود مختار قومیں اس قسم کے حملوں کے بعد حملہ آوروں سے سخت لہجہ میں بات کرتی ہیں اور ان پہ زمین تنگ کر دی جاتی ہیں لیکن جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے یہاں ہم ان حملہ آوروں کو مزید جنگ کرنی کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں ہماری سرحدوں سے راشن اور تیل کی رسائی ملنے کے بعدیہ حملہ آور اپنے جہازوں کو ری فیول کرتے ہیں اور ہمیں فول بنا کر چلے جاتے ہیں آئے دن ان کے جہاز تابڑ توڑ 
حملے کرتے ہیں اور سب کچھ تھوڑ پھوڑ کر سرحد کے پار چلے جاتے ہیں اس کے بعد ہم بے کار قسم کے نعرے لگاتے رہتے ہیں کبھی ان کی ڈمی تصویریں جلا کر اپنا بلڈ پریشر ہائی کرتے ہیں اور کبھی ان کے ملک کا پرچم جلا کر ان کو ہرجائی ہونے کا طعنہ دیتے ہیں سرحد کے پار بیٹھے یہ حملہ آورایسے ڈراموں سے باالکل محظوظ نہیں ہوتے بلکہ غصے میں آ جاتے ہیں اور نئے حملے کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں 

ملک پہ اس قسم کے رکیک حملوں کے بعد سیاسی غور کرنا شروع کرتے ہیں اور بوکھلاہٹ میں اتنے مضحکہ خیز بیانات دیتے ہیں کہ بندہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ امن کا بیان دے رہے ہیں یا جنگ کا اعلان کر رہے ہیں ان کی مضحکہ خیزی کو دیکھ کر اچھا خاصا تحمل مزاج بندہ بھی غصے سے لبریز ہو جاتا ہے مثلا ایک چھوٹے وزیر کا بیان تھا کہ ہم سرحد پار حملے کا منہہ توڑ جواب دینگے اب انہیں کون سمجھائیں کہ جن لوگوں کے بازو مروڑ اور جوڑ توڑے جا چکے ہیں وہ بے چارے اس قابل نہیں کہ منہہ توڑ جواب دے سکیں ویسے بھی ذاتی مفاد کے توڑ جوڑ میں ہمارے سیاسی اس قدر الجھ چکے ہیں کہ صرف انہیں دو سے پانچ کروڑ والی بات سمجھ میں آتی ہے ان مفادی سیاسیوں کو پہلے بون یا مغرب میں واقع کسی پرسکون شہر میں میں سرکاری خرچے پہ آنے کی دعوت دی جاتی ہے جہاں امن قائم کرنے کے بارے میں بات چیت ہوتی ہے مذاکرت ختم ہوتے ہی ریٹرن ٹکٹ کے سا تھ گن اور وار آن ٹیرر میں مزید خون دینے کی فرمائش کی جاتی ہے جو یہ لوگ بخوشی قبول کر لیتے ہیں لین دین کا معاملہ طے کرنے کے بعدیہ مفادی وطن کی سر زمین پہ لینڈ کر ہی رہے ہوتے ہیں کہ خبر آتی ہے فرنگیوں نے پھر سے جنگ کا بینڈ بجانا شروع کر دیا ہے جس میں بے گناہ خون ہو گیا ہے یہ لوگ ریٹرن فلائٹ سے دوبارہ امن مذاکرت کے لئے ان کے شہر پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے دوبارہ وار آن ٹیرر میں مزید خون کی فرمائش کی جاتی ہے اور اس طرح یہ سلسلسہ وہی سے شروع ہو جاتا جہاں سے منقطع ہوا تھا

 


پچھلے دنوں کسی چھوٹی وزارت کی طرف سے یہ بیان بھی سننے کو ملا جس میں انہوں نے شہنشاہِ عالم سے برابری کی سطح پہ اچھے تعلقات استوار کرنے کی فرمائش کی تھی ان حضرات کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چائیے کہ اس قسم کی آسائش ان کو فراہم کی جاتی جو آنکھیں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھتے ہوں جن کی سرزمین پہ غیر ملکی اڈے قائم ہوں اورجن کی سرحدیں سیسہ پلائی دیوار کی بجائے نیٹو کی سپلائی کے لئے استعمال کی جار ہی ہوں وہاں برابری کی نہیں چاکری کی بات کی جاتی ہے نجانے اس قسم کے مضحکہ خیزی سے یہ کسے بے وقوف بناتے ہیں وہ تو خود یہ بہتر جانتے ہوں گے لیکن ایک بات صاف ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ عوامی غیض و غضب عروج پہ ہے تو ان سے وقتی قطع تعلق ضرور کر لیتے ہیں اور جونہی یہ غیض و غضب ٹھنڈا ہوتا پھر سے انہی سے فیض حاصل کرنے کے لئے دوبارہ در پہ حاضری دینے کے لئے ان کے شہر تشریف لے جاتے ہیں 

جہاں تک وزاتِ خارجہ کے احکامات کا تعلق ہے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جو ادارہ اپنی بنائی ہوئی پالیسی رن کرنے کا اختیار نہیں رکھتا وہ فارن پالیسی بنانے کا کیسے مجاز ہو سکتا ہے لہذا اس وزارت کے فیصلے اس قابل نہیں کہ ان کو سنجیدہ لیا جائے وزاتِ خارجہ کا وزیر ویسے بھی اختیار نہ ملنے پہ کبھی فوج سے اور کبھی فوج کے اداۂ کھوج سے ہمیشہ رنجیدہ رہتا ہے اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جس ملک میں سب سے بڑا وزیر ہی اتنا چھوٹا ہوں کہ لوگ اس کے بیان کو پان کی پچکاری سمجھتے ہوں وہاں کسی اور وزات کے بیان کی کیا اہمیت یہاں کا وزیر ایک دن یہ بیان دیتا ہے کہ بیرونی جارحیت کا منہہ توڑ جواب دیں گے تو دوسرے دن بڑے ملک کے وزیر سے منہہ جوڑ کر قہقے لگا رہا ہوتا ہے لوگ جب چھوٹے چھوٹے اخبارات کی فرنٹ پیچزپہ ان کی بڑی بڑی ہنستی ہوئی سستی تصویریں دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کمال کا داؤ پیچ لگا رہا ہے بس دیکھنا شام تک مسئلہ حل ہو جائے گا ایک دن کے بریک کے بعد لوگ دیکھتے ہیں کہ دوسرے دن یہی وزیر انہی کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ کر رہا ہوتا ہے تیسرے دن تو ساری امیدوں پہ پانی پھر جاتا جب جیو سے خبر آتی ہے کہ غیر ملکیوں نے پھر سے ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تو لوگ ان کو فون کرتے ہیں کہ اب خون کیوں ہو رہا ہے اور وزیر کیوں قہقے لگا رہا تھا تو مختصر سا جواب ملتا ہے کہ موصوف اقتدار کے نشے میں بہکے ہوئے تھے بس اسی نشے میں مست قہقے لگا رہے تھے 
سننے میں آیا ہے کہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی بھی اعلان بازی میں کسی سے پیچھے نہیں اس کمیٹی نے یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا ئے گا محسوس ہوتا ہے لکھنے والوں نے غلطی سے رفاعی کیمٹی کی بجائے دفاعی کمیٹی لکھ دیا ہے اگر بیان دفاعی کمیٹی والوں کی طرف سے جاری ہوتا تو لہجہ میں تابعداری نظر آتی کیونکہ اس قسم کا سخت بیان دینا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں اس کے علاوہ بیان میں پاکستان کی سرزمین پہ موجود غیر ملکی فوجیوں کا کہیں ذکر نہیں اس کے علاوہ اعلان یا بیان میں یہ بھی نہیں واضع کیا گیا کہ غیر ملکی جاسوس بھیس بدل کر ہمارے ملک کے چپے چپے کی نگرانی میں دن رات مصروفِ عمل کیوں ہیں اور ہماری ہی سرحدوں سے راشن سمیت تیل اور پٹرول ان کو کیوں بھیجا جا رہا ہے سردی کے موسم میں ان کے لئے گرم کمبل کیوں سپلائی کئے جار ہے ہیں خود مختاری کا راگ الاپنے والوں نے یہ بھی نہیں لکھا کہ خود مختار ملک کے بے کار شہریوں کو خون میں نہلانے والوں کو بولیاں لگا کر کیوں چھوڑا جاتا ہے امید ہے آئندہ حکومت دفاعی کمیٹی کے بارے میں سوچنا چھوڑ کر رفاعی کمیٹیاں قائم کرنے پہ ضرور غور کرے گی

یہ حضرات شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ وار آن ٹیرر میں جو لوگ مر رہے ہیں ان میں اکثریت بے چارے معصوم شہریوں کی ہے جن کا ان کی مفادی اور فسادی جنگ سے کوئی تعلق نہیں آئے دن کے ڈرون اٹیک اور سرچ آپریشن سے عوام کی زندگی تنگ ہے اسکول کی نصابی کتابوں میں ہمیں یہی پڑھایا جا رہا ہے کہ ہم انیس سو سنتالیس میں آزاد ہوئے تھے لیکن لکھنے والے ہماری بربادی کی تاریخیں لکھنا بھول گئے امتحانات میں ہم سے صرف یہی تاریخیں پوچھی جاتی ہیں جو ان کا درست جواب نہیں لکھتا اسے فیل کر دیا جاتا ہے جب تلک ہم اپنے ہونہا ر شاگردوں کو بے کا ر کی باتیں بتاتے رہیں گے خود مختار نہیں ہو ں گے ہمیں اپنے بچوں کو خود مختاری کا اصل مفہوم بتانا ہو گا انہیں صرف تاریخیں یاد کرنے کے لئے کہا جاتا رہے گا تو یہ ہونہار بچے بور ہونا شروع ہو جائیں گے اور ہماری باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں گے اور کچھ عرصہ کے بعد اپنے دل و دماغ سے بھی نکال باہر کریں گے ہمیں انہیں آزادی کی تاریخوں کے گرد گھمانے کی بجائے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ خودمختاری میں غیر ملکی دن کی روشنی اور رات کی گھنی راتوں میں اس ملک کے بسنے والوں کو ڈرون اٹیک کا نشانہ نہیں بناتے اور نہ ہی اتنے نڈر ہو جاتے ہیں کہ ملک کا باڈر پار کر کے کئی سو کلو میٹراندر بھی آجائیں اور آرام سے باہر بھی چلے جائیں اور وہ بھی اس جگہہ جہاں ملک سے وفا کرنے والے دفاع کے ادارے بکثرت موجود ہوں جہاں دن میں سو مرتبہ وطن پہ مر مٹنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں

جب ہمارے سیاسی نیٹو کے حملوں پہ احتجاج کرتے ہیں تو یہ کنفیوز ہو جاتے ہیں انکی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ پہلے یہی لوگ انہیں پخیر را غلے کہتے ہیں اس کے بعد چلے جانے کو کہتے ہیں اس قسم کی دوغلی پالیسی پہ انہیں بہت غصہ آتا ہے اور غصے کے عالم میں دو چار گولے ڈرون کی صورت میں گرا جاتے ہیں ان حملوں کے بعد ہم یومِ احتجاج منانے میں مصروف ہو جاتے ہیں جب عوام بے وقوف بن جاتی ہے اور معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو یومِ احتجاج کے سرکردہ لوگ مردہ ضمیر کے ساتھ بینڈبا جا اور بارات لئے ان سے خراج لینے ان کے دروازے پہ دستک دیتے ہیں پہلے چپراسی یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کرتا ہے کہ صاحب گھر پہ نہیں لیکن جب بہت گڑگڑاتے ہیں تو صاحب خود ہی باہر آ جاتے ہیں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی جاتی ہے اور تمام نفاق فراموش کر کے ان کی تمام شرائظ پہ اتفاق ہو جاتا ہے کہانی ختم پیسہ ہضم

ہمیں یہ بھی بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ کن لوگوں کے آڈر پہ آئے دن ملک کا باڈر کراس ہو رہا ہے ایک آزاد اور خودمختار ملک میں غیر ملکی اڈے کیسے ہو سکتے ہیں اس ملک میں وفاداری کو غداری اور غداری کو وفاداری کیوں کہا جاتا ہے ہمارے ساتھ غلامانہ سلوک کیوں روا رکھا جاتا ہے ہماری سرحدوں سے غیر ملکی فوجوں کو سپلائی کیوں جاری ہے ہمیں اپنے نونہالوں کو ان سب سوالوں کا جواب دینا پڑے گا جب تک خود مختاری کا دعوی کرنے والے تاتاریوں کا ساتھ دیتے رہیں گے اور ان کے جارحانہ حملوں کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے ہم سر بلند نہیں ہو سکتے البتہ دعوے ضرور کر سکتے ہیں کیونکہ بلند و بانگ دعووں میں ہم بہت سی قوموں سے آگے ہیں یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم قیامِ پاکستان سے قبل ہی نعروں میں خود کفیل ہو گئے تھے آزادی کے بعد تو گویا اتنی ترقی کر لی کہ ہمارے نعرے باقاعدہ ایکسپورٹ بھی ہونے لگے صبح اسکول کی اسمبلی میں سات بجے پاک سر زمین کا ترانہ پڑھایا جاتا ہے تو آٹھ بجے انگریزی گانا یاد کرنے کو کہا جاتا ہے نو بجے انگلش ٹیچر انہیں تاکید کرتی ہے کہ انگریزی نہیں سیکھو گے تو عمر بھر پھٹیچر رہو گے دس بجے ہسٹری ٹیچر انہیں انگریز سامراج کی ظلم و زیادتیوں پہ ایک مفصل مضمون لکھنے کو کہتا ہے گیارہ بجے اسلامیات کا ٹیچر انہیں یہ بتاتا ہے کہ تمام برائیوں کی جڑ ہی مغرب پرستی ہے بارہ بجے تک بچے اتنے بوکھلا جاتے ہیں کہ ان کے منہہ پہ بارہ بج رہے ہوتے ہیں





ہم پیارے بچوں کو سبق تو خود مختاری کا پڑھاتے ہیں لیکن چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے جب وہ غربت اور بے روزگاری دیکھتے ہیں تو خود مختاری کا سبق بھول جاتے ہیں ٹی وی آن کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ تاتاریوں نے ملک کی خود مختاری پہ حملہ کر دیا ہے خبریں نشر ہو رہی ہوتی کہ ان کے حملو ں سے بے گناہ اور معصوم لوگوں کا حشر ہو گیا ہے بچے سوچتے ہیں کہ ان کو اسکول میں انگریزی گانا کیوں یاد کرنے کو کہا جاتا ہے اور مسز تبریزی انگریز ی سیکھنے اور بولنے پہ کیوں اتنا زور دیتی ہیں خبریں ختم ہوتے ہی سیاسی بیان بازی شروع ہو جاتی ہے ٹاک شوز میں چھوٹے چھوٹے سیاسی بڑی بڑی باتیں اور دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں مثلا ہم ملک کی خود مختار ی پہ آنچ نہیں آنے دیں گے ملک کے چپے چپے کا دفاع کریں گے وغیرہ وغیرہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد پیارے بچے اور کنفیوز ہو جاتے ہیں کیونکہ اس وقت تک دوست نما دشمن یا دشمن نما دوست پیارے وطن کی آن کو کانچ کی ٹکڑ یاں بنا چکے ہوتے ہیں اور لاشوں کا ڈھیر بکھیر کر واپس سدھار چکے ہوتے ہیں اس کے علاوہ خود مختاری کی نمائشی دکان بمعہ تمام سامان اپنے گولے بارود سے جلا کر راکھ کر چکے ہوتے ہیں یہ دیکھنے کے بعد امی حضور سے سوال کرتے ہیں امو یہ خود مختاری کسے کہتے ہیں تو مسز کلثوم ان معصوم بچوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دے پاتی بڑے بچوں کے سوالات یعنی ایسے بچے جو کچی پہلی اور پکی پہلی پاس کر چکے ہوتے ہیں انہیں اور زیادہ پریشان کرتے ہیں بعض اوقات تو کلثوم بیگم غصے سے باقاعدہ گھوم جاتی ہیں اور بچے کے گال پہ غصے سے ایک آدھ چپت بھی رسید کر دیتی ہیں بچے جس قسم کے سوالات کرتے ہیں اس کا ذکر صفحہ نمبر تین کے پیراگراف تین میں اختصار کے ساتھ کیا گیا ہے مثلا کیا خود مختار ملک میں غیر ملکی اڈوں کی موجودگی ملک کی خود مختاری کے منافی ہے اور اس طرح کا جرم کرنے والے قابلِ معافی ہیں کیا سرحدوں سے دشمنوں کو راشن سپلائی کرنے کے بعد ہم ان کے خلاف سیسیہ پلائی دیوار بن سکتے ہیں ڈرون اٹیک کی بیک پہ حکومت کے کون کون لوگ شامل ہیں وغیر ہ وغیرہ ان سوالوں کا جواب سب کو معلوم ہے لیکن چونکہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لئے والدین ان کے ننھے ذہنوں پہ مزید پریشر نہیں ڈالنا چاہتے اور جواب گول کر دیتے ہیں والدین کی طرف سے غیر تسلی بخش جواب سن کر جب پیارے بچے مطمئن نہیں ہوتے تو دوسرے دن ہیڈ ماسٹر گلبدین صاحب کے پاس جاتے ہیں او ر عرض کرتے ہیں سر کل ہم نے جیو پہ دیکھا کہ دشمنوں نے ہمارے ملک کے پرخچے اڑا دئیے ہیں کیا خود مختار اور آزاد ملک میں ایسی وحشیانہ بمباری کی جاتی ہے اور اس کے شہریوں کو بھکاری سمجھا جاتا ہے تو ماسٹر صاحب کا مختصر سا جواب ہوتا ہے فالس بچے مزید وضاحت طلب کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو ماسٹر جی ان کو یہ کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس قسم کے سوال امتحان میں نہیں پوچھے جاتے اگر کوئی پوچھ بھی لے تو صرف ٹرو فالس کے سیکشن میں پوچھے جاتے ہیں کوئی بچہ زیادہ اصرار کرے تو ماسٹر صاحب کہتے ہیں بیٹا حساب سے زیادہ نصاب کی کتابوں پہ دھیان دو جو کتابوں میں جو لکھا ہے اس کا رٹہ لگاؤ ورنہ فیل ہو جاؤ گے اس کے بعد بھی کوئی جواب پہ بضد رہے تو تنگ آکر گلبدین صاحب یہ کہہ کر سب کو خاموش کر دیتے ہیں کہ بیٹا یہ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہے 

ہم جس قسم کی خودمختاری کا دعوی کر رہے ہیں اس کی تشریح فیروز اردو لغت کے کسی ایڈیشن میں موجود نہیں تحقیق کرنے والوں نے نہایت باریک بینی سے پورے کا پورا اردو انسائکلو پیڈیا چھان مارا لیکن انہیں بھی اس قسم کی خودمختاری کی تشریح نہیں مل سکی جس کا پرچار سیاسی عیار کر رہے ہیں یہ لوگ خود مختاری کو تابعداری کا نقاب پہنا کر کباب کھانے میں مصروف ہیں آج اسی تابعداری کی وجہ سے ہمیں بھکاری سمجھا جاتا ہے تاتاری بلا روک ٹوک ملک کے اندر کئی سو کلو میٹر تک گھس آتے ہیں اور ہمیں بھس اور پھس کر کے چلے جاتے ہیں ان کے چلے جانے کے بعد ہم غم و غصے سے ہوا میں ڈمی فائر کر کے ٹھس ٹھس کرتے رہتے ہیں ہمیں پیارے بچوں کو یہ واضع کرنا ہو گا کہ ملک کے دفاع سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ ملک کے ساتھ وفا کی جائے جب دلوں میں وفا پیدا ہو جاتی ہے تو مشکل گھڑی میں پوری قوم وطنِ عزیز کے دفاع کے لئے خو د بخود کھڑی ہو جاتی ہے ایک دفعہ جب یہ جذبہ جاگ جاتا ہے تو کھوکھلے نعروں اور اشاروں کی ضرورت باقی نہیں رہتی دشمن خود ہی خوف کے مارے بھاگ جاتا ہے 

ہماری زمین کو غیر ملکی لوگوں نے اپنے ناپاک عزائم کی کمین گاہ بنا رکھا ہے ایک طرف توہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو دشمن کے ناپاک سائے سے محفوظ رکھیں گے تو دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پورے کروفر سے ہمارے ملک پہ چھائے ہوئے ہیں ہماری خود مختاری کو سنٹر لائن سے کراس کرتے ہوئے آئے دن گول کرتے ہیں اور پھر خوشی سے ڈھول بجاتے ہیں سب کچھ کرنے کے بعد ہمار ا مول لگایا جاتا ہے اور ہمیں ایسی ذلت آمیز شرائط قبول کرنے پہ مجبور کیا جاتا ہے جو کسی بھی خود مختار و آزاد ملک کے شایانِ شان نہیں 

مداری قسم کے لوگ غیروں کی تابعداری پہ چست اور ملک کی وفاداری میں سست نظر آتے ہیں سیٹرڈے کو بھاری بھاری بیان دینے کے بعد سنڈے کو بھکاری بن کے تابعداری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تابعداری کو وفاداری کا نقاب چڑھا کے قوم کو سہانے خواب دکھانے کے علاوہ اور کچھ خاص نہیں کر رہے ہمیں اپنی بے وقوف عوام کو یہ سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ اب پیاری پیاری باتیں چھوڑ کر خود مختاری کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہم ان ہی باتوں پہ زندہ ہیں خود کو صرف زندہ قوم کہنے سے کوئی قوم زندہ نہیں ہو جاتی اسی طرح زندہ باد کے فلک بوس نعروں سے کوئی قوم ہوش میں نہیں آسکتی مدہوش قوم کو ہوش میں لانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ آپس کا نفاق فراموش کیا جائے اور دوغلے پن کی چارد میں روپوش ہونے کی بجائے حقیقت کا سامنا کیا جائے جب تک ہم پیاری پیاری باتیں بچوں کے معصوم ذہنوں میں ڈالتے رہیں گے اور یہ بتاتے رہیں گے کہ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں ہم خودمختاری کے مفہوم کو سمجھ نہیں پائیں گے نصاب کی کتابوں میں خود مختاری کی تشریح کو ٹھیک کرنا ہو گا کیونکہ جس قسم کی خود مختاری کا سبق ہمیں پڑھایا جا رہا ہے اس میں تابعداری کے مفہوم کو اجاگر کیا جار ہا ہے جس کی وجہ سے لوگ تابعداری اور خود مختاری کا فرق ہی بھولتے جار ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ بے جا تابعداری میں قوم کو بدنام کر رہے ہیں ان کو خدا حافظ کہیں اور ان لوگوں کی آواز پہ لبیک کہیں جو وفا شعاری پہ یقین رکھتے ہیں ہمیں اسٹیشن جا کے اسٹیشن ماسٹر سے یہ درخواست کرنا ہو گی کہ کچھ لوگ باہر سے ڈکٹیشن لے رہے ہیں ان کو سکھر اور رائے ونڈ جنگشن پہ اتارنا ضروری ہے براہِ مہربانی ان کے دل میں میں چھپے کھوٹ کو پہچانو او ر تیز گام گاڑی سے اتار کر ان کو مال گاڑی میں سوار کرو اور چھٹکارا پاؤ اس کے علاوہ سیاست کے کچھ کھلاڑی نما کباڑی بھی اس گاڑی میں سوار ہیں ان کا بھی ٹکٹ کینسل کر نے کی ضرورت ہے اگر یہ ممکن نہیں تو ان کو تھرڈ کلاس میں بھیج کر ان سے خلاص حاصل کیا جا سکتا ہے

ماضی میں ایک فوجی کھلاڑی نے سیاسی اناڑی کا ثبوت دیتے ہوئے فقط ایک فون کال پہ ملک کی آن بڑے خان کو فروخت کر دی اس کے بعد پاکستان کا نعرہ لگا کر وفاداری کے نام پہ تابعداری کرتا رہا ہمیں فی الحال ایسی خود مختاری نہیں چائیے جس میں میں غیر ملکی ہمیں کم قیمت پہ بھاری جانی نقصان پہنچائیں ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ فی الحال ہمارے ایف سولہ لڑاکا طیارے صرف ہوا میں غبارے اڑانے کے لئے کارآمد ہیں اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ ہم یہ طیارے انہیں واپس کر کے نیوی سیل والے چاپر ان سے لے لیں ان ہیلی کاپٹروں کے بہت سے فوائد بیان کئے جاتے ہیں اول یہ چاپر پورے کا پورا مواصلاتی نظام ہی سیل کر دیتے ہیں ملک کے اندر حساس علاقوں کو کراس کرتے ہوئے کئی فوجی چھاؤنیاں پار کرتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی اس کے علاوہ تیز رفتاری میں بھی اپنی مثال آپ ہیں یہ پھر پھر کرتے آتے ہیں اور فر فر اپنا کام کرتے ہیں اور لوگوں کو انجام پہ پہنچانے کے بعدآرام سے گھر چلے جاتے ہیں ہمارے ایف سولہ طیارے زمین پہ ہی کھڑے کھڑے گھر گھر کرتے رہتے ہیں زیادہ اسپیڈ دینے کی کوشش کرو تو گراری ہی خراب ہو جاتی ہے اور طیارے کا ڈرائیو لے جا مر کہہ کر جہاز کا انجن بند کر کے گھر چلا جاتا ہے مستقبل میں جوابی حملے کا امکان کم ہی ہے لیکن پھر بھی سیاسی اگر اپنی سیاست کی دکان چمکانا چاہتے ہیں تو قومی دفاع کے نام پہ یہ چاپر آسان اقساط پہ خریدے جا سکتے ہیں اگر قسطیں افورڈ نہیں کر سکتے تو پشاور یا پنڈی کا ائیربیس انہیں عنایت کر کے خود مختاری کے نام پہ کفایت شعاری کی جا سکتی ہے

اس ملک کے کچھ سیاسیوں کو انتشاری سیاست دان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا یہ سیاسی تاتاری حملوں کے بعدبھاری بھاری بیان دینے کے بعدذلت آمیز تابعداری پہ اتر آتے ہیں یہ اسی ذلت آمیزی کا نتیجہ ہے کہ ہماری سرزمین غیر ملکیوں کی کمین گاہ بنی ہوئی ہے نجانے معاملہ بند لوگوں کے کندذہن میں یہ بات کب آئے گی کہ جب تک بنگلے والے ہمیں گنگلہ سمجھتے رہیں گے برابری پیدا نہیں ہو سکتی ویسے بھی بنگلے گنگلوں سے میل ملاپ رکھنا پسند نہیں کرتے اگر کسی ضرورت کے تحت ان سے ملتے بھی ہیں تو اس میں ان کا اپنا مفاد پوشیدہ ہوتا ہے اب گنگلہ کتنا ہی گلا پھاڑ پھار کر برابری کی باتیں کرتا رہے تو یہ اس کی مرضی باتیں کرنے پہ تو کوئی پاپندی عائد نہیں کر سکتا دعوے اور بھڑکیں مارنے پہ بنگلے والے صاحب نے فی الحال کوئی شرط عائد نہیں کی اور گنگلوں کو اس کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ جتنی مرضی چاہیں بھڑکیں ماریں یہ لوگ اکثر اشاروں کنایوں میں ہم سے کہتے ہیں کہ ہم تو مار ہی رہے ہیں ہو سکے تو ایک دوسرے کو اور مارو اس سے ہمارا کام آسان ہو جائے گا


کچھ وفادار لوگوں کی نبض میں اس وقت خون کی تیزی آ جاتی ہے جب ذمہ دار لوگوں کی طرف سے نہایت ہی مضحکہ خیز بیان سننے کو ملتے ہیں مثلا حملہ ختم ہونے کے بعد کوئی یہ آڈردے کہ آئندہ سرحد پارسے حملہ آور آئیں تو بچ کر نہ جانے پائیں اور فوری کاروائی کے لئے اوپر سے ہدایات کا انتظا ر نہ کیا جائے جناب گذارش یہ ہے کہ سرحد پار سے آنے والوں کی فکر نہ کیجئے یہ لوگ سرحد کے آر اپنے ہوائی اڈے قائم کئے بیٹھے ہیں سرحد کے آر والے سیاسی عیار کیا کر رہے ہیں اس کی فکر کیجئے ابھی تک میڈیکل سائنس نے تو کوئی ایسی نیند کی گولی ایجاد نہیں کی جسے کھا کر جاگنے والے سوتے رہیں شہر میں گولیاں برس رہی ہوں اور کوئی ٹس سے مس نہ ہوں گولے داغے جا رہے ہوں اور شہر کے لوگ بھولے بنے رہیں انٹیلی جنس ادارے کے ایک ریٹائرڈ انٹیلی جنس افسر کا خیال ہے کہ جب چین آف کمانڈ غیر ملکی برانڈ کے سگریٹ پی کر سو جائے تو واقعی نیند کی گہری آغوش سے کسی کو بھی اٹھانا ممکن نہیں ڈالروں کی بولی وہ کام کر دکھاتی ہے جو کہ نیند یا بندوق کی گولی نہیں کر سکتی

ختم شد

No comments:

Post a Comment